Home | Urdu | Kalam e Irfan
Khyalistan e Khalid - 4 Volumes
To Read Khayalistan e Khalid Part 1 online click on the Title Page
To Read Khayalistan e Khalid Part 3 online click on the Title Page
To Read Khayalistan e Khalid Part 2 online click on the Title Page
To Read Khayalistan e Khalid Part 4 online click on the Title Page
صاحبِ تصنیف میرے مرشد قبلہ کے کلام ’’خیالستانِ خالدؔ ؒ ‘‘ کا تعارف مجھ ہیچمدان کے دائرہ امکان سے بالا تر ہے۔قلم عاجز ہے اور میں حیران ہوں کہ اس مقدس شخصیت کا تعارف کن الفاظ میں بیا ن کروں‘بس یہ اشعار وردِ زبان ہیں
آقا کہوں یا مالک و مولا کہوں تمہیں یا باغِ وجودیؒ کا گُلِ زیبا کہوں تمہیں
گلزارِ شمسؒ کا گُلِ رنگیں ادا کہوں یا خواجگانِ چشت کا سہرا کہوں تمہیں
اﷲ رے یہ حُسن تخیل کی رفعتیں حیران ہوں میرے شاہ کیاکیا کہوں تمہیں
لطیف قادرؔی
نام و نسب:۔
مرشدی ومولائی حضرت قبلہ کا اسمِ گرامی خالد ابی اللیل المعروف خالد بن جانثار یار جنگ ہے آپ کو سلطان الاسرار‘ شیخ الکامل ،ذرہ نواز محبوبِ رحمانی بدر الدین، خواجہ ابوالفیض شاہ محمد خالد وجودی قادری الچشتی علیہ الرحمۃ جیسے القاب سے یاد کیاجاتا ہے۔ اور آپؒ کے والدِ بزرگوار حضرت عوض ابی اللّیلؒ نواب جانثار یار جنگؒ ہیں۔ آپؒ کے وا لدِ ماجد ملک یمن (جزیرۃ العرب) سے حیدرآباد دکن تشریف لائے اور بادشاہِ وقت آصف جاہ ششم نواب میر محبوب علی خان نے اپنے اے۔ڈی۔سی کے با وقار عہدہ پر فائز فرمایا۔ حُسنِ خدمات کی بناء پر آپ کو جانثار یار جنگ کے خطاب سے بھی سرفراز کیا گیا۔ حضرت خالدؒ بن جانثار یار جنگ کی ولادت 6؍ رجب 1297 ھ مطابق 6؍ ڈسمبر 1879 ء حیدرآباد دکن میں ہوئی۔آپ شافعی المسلک، قادری ، چشتی ، سہروردی ،رفاعی مشرف وحدت الوجود مذہب کے حامل تھے۔ آپؒ کا نسبی سلسلہ پدری عرب کے مشہور امراء قبیلہ ابی اللّیل الہاشمی سے ہے اور سلسلہ مادری سیدجلال الدین جہانیان جہاں گشت بخاریؒ سے ہوتا ہواحضرت سید احمد کبیر رفاعیؒ سے جاملتا ہے ۔
مقام و مرتبہ:۔
حضرت خالد میاں قبلہ علیہ الرحمۃ کو اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ ابو رضا سید بادشاہ محی الدین حسینی وجودیؔ القادری علیہ الرحمۃ اور دادا پیر حضرت خواجہ شمس الدین علیہ الرحمۃ اورنگ آبادی سے راست تربیت اور فیضان و توجہ خاص حاصل رہی۔ جو آپؒ کو ایک امیر سے فقیرِ کامل بنادیا آپؒ کو اپنے پیرؒ سے نسبت اور فنائیت کا اندازہ خود آپؒ کے اس شعر سے ہوتا ہے
نام کو بھی نہیں رہا خالدؔ ہیں وجودی پیا وجودی پیاؒ
آپؒ کی پیرپرستی اور خودپیرؒ کی توجہ خاص نے آپؒ کو فنا فی الرسول و فنا فی اﷲ کی منزلیں طے کرادیں ۔آپ ؒ اپنے کلام میں اِس جانب اشارہ فرماتے ہیں کہ
گو خالدؔ نام ہے میرا مگر بندے کا بندہ ہوں محمد مصطفی کے فضل سے میں سب میں دائر ہوں
کچھ ایسا مرتبہ فضل کرم سے ہوگیا حاصل نہ ہم اپنے کو پاتے ہیں نہ اب اُن کو پاتے ہیں
بخدا ! مجھ خادم کا وجدان کہتا ہے کہ آپؒ ولایت کے درجہ کمال پر محمدی مشرف ہو کر احدیت کے مکیں و تمکین ہیں واﷲ اعلم و رسولہٖ۔ اس کے باوجود آپؒ کی عاجز مزاجی اور خوش خلقی کا یہ عالم ہے کہ ایک جگہ فرماتے ہیں
دھوکا مت کھا تو رب کو رب ہی سمجھ خالدؔ انساں نہیں تو پھر کیا ہے
حضرت خالدؔ وجودیؒ
آپؒ نے بعمر111 سال 11؍ جمادی الثانی 1408 ھ مطابق 30 ؍ جنوری 1988 ء کو بوقت فجررحلت فرمائی۔ رحمۃ اﷲ علیہ۔
آپؒ کا مزارِمبار ک بارکس حیدرآباد میں آپؒ کے پیر و مرشد حضرت ابو رضا سید بادشاہ محی الدین وجودیؔ القادری علیہ الرحمۃ کی گنبدِ مبارک کے جوار میں زیارتِ گاہ خاص و عام ہے۔
حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ کو قرآن و حدیث پر گہری بصیرت حاصل تھی۔ اصولِ فقہ‘ ادب اور تصوف پر خاص دسترس کے حامل رہے ہیں۔ آپؒ استادِ سخن اور با صلاحیت شاعر بھی رہے ہیں۔ آپؒ کا کلام خیالستانِ خالد حمدِ باری تعالیٰ نعتِ رسولِ مقبول ﷺ ، مناقبِ اولیاء کرام،غزلیات و رباعیات علومِ عرفانی وتصوف ،عشقِ رسول ﷺ سے بھرا ہوا اُردو و فارسی زبان میں 800 صفحات پر مشتمل ضخیم مجموعہ کلام ہے۔ حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ کو زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی چنانچہ آپؒ کے کلام میں فن کی پختگی ،طرزِ ادا کی شگفتگی ،اظہار میں بے ساختگی ،لب و لہجہ کی پُر اثر آفرینی، تشبیہات و استعارات کی بو قلمونی جا بجا نمایاں ہے اور اشعار کی تلفیظ کا دائرہ بہت وسیع ہے جس کی ترکیبیں متنوع اورمنفرد ہیں۔اکثر مترنم اور نغمہ ریزی ،بحروں کا انتخاب کلام کو سماع کے لئے نہایت موزوں بنادیتا ہے۔
اہل قال شعراء کا کلام جو صرف زبان سے واہ واہ نکلوادے معتبر نہیں اہل حال حضرات کا کلام جو روح کو گرمادے ‘دل پر اثر انداز ہو اور جس سے عشقِ رسول ﷺ میں آفرینی ہو اور آنکھ نم ہوجائے اور قلب مضطرب ہوجائے وہ کلام معتبرہوتا ہے۔ حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ کے کلام میں یہ خصوصیت صاف نمایاں ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ شعری مجموعہ (خیالستانِ خالدؒ ) سخن و ادب کا ایک بحرِ بیکراں ہے جس کی غواصی کرنے والے ہر بار معرفت و حقیقت کے آبدار موتیوں سے اپنے دامنِ مقصود کو بھر لیتے رہیں گے۔بلا شبہ یہ کلامِ نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ خیالستانِ خالدؒ (640) منظومات اور (41) رباعیات پر مشتمل ہے۔جس میں متعدد مسدس، مثلث اور خمسہ بھی شامل ہیں ۔جملہ اشعار کی تعداد(4500) تک پہنچ جاتی ہے۔
حضرت قبلہ خالد وجودیؒ کے چند ارشادات ملاحظہ ہوـ
ـ آپؒ کی نگاہ حقیقت میں دنیوی زندگی کی اہمیت نہ تھی۔آپ اکثر فرمایا کرتے ’’میگزرد‘‘(یہ دنیا ہے گزرجاتی) ۔
ـ اسلام صرف سادہ زندگی کی تعلیم دیتا ہے‘ کسی لہو و لعب میں مبتلا ہونے نہیں دیتا۔صرف اﷲ اور رسولﷺ کے احکامات پر چلاتا ہے۔
ـ غور کرو!’’لا ‘‘ سے ’’اِلٰہ ‘‘ کی نفی ہورہی ہے۔الَّا سے ’’ اﷲ ‘‘ کا ثبوت ملتا ہے۔جو ثابت ہوتی وہی چیز قائم رہے گی۔جس کی نفی کی جاتی ہے وہ باقی نہیں رہتی۔ جیسے میں نے کہا ’’ آپ نہیں ہیں آدمؑ ہیں‘‘۔کیا میں جھوٹ بولا؟نہیں! میں نے آپ کی نفی کردی تو آپ کے تقید(شخصیت) کی نفی ہوگی اور آپ کی حقیقت سامنے آگئی۔ویسا ہی یہاں، تقیداتِ کائنات کی نفی کی جاتی ہے تو حقیقتِ کائنات سامنے آتی ہے۔ حقیقتِ کائنات سامنے آنے کے بعد اب آپ اس حقیقت کو نہ دیکھیں، نہ مشاہدہ کریں،نہ پہچانے تو یہ آپ کی غفلت ہے۔
اثباتِ حق کے ساتھ ہی کردے جو سب کی نفی باقی خدا ہی رہ گیا ‘ تیری خودی رہی نہیں
حضرت خالدؔ وجودیؒ
ـ جو اول و آخر‘ ظاہر و باطن،حاضر و ناظر ہے۔آپ سمجھے بھی تو آپ کا ظاہر ’’ اﷲ ‘‘ ہے آپ کا باطن بھی ’’ اﷲ ‘‘ ہے۔اگر نہیں سمجھے تو آپ خسارے میں ہیں ، جوکچھ ہے ’’فہم ‘‘ہے!
مَنْ فَہَمَ فَہَمَ (جو سمجھا سمجھا)۔مَنْ فَہَمَ سَکَتَ (جو سمجھا وہ خاموش ہوگیا)۔مَنْ سَکَتَ سَلِیْمَ (جوخاموش ہوگیا وہ سلامتی میں آ گیا)۔ مَنْ سَلِیْمَ نَجَاتَ (جو سلامتی میں آگیاوہ نجات پالیا)۔ ارے بھائی سمجھے بھی تو اﷲ ہے نہ سمجھے بھی تو اﷲ ہی ہے تو پھر اﷲ ہی کو دیکھو۔
خدا کو دیکھ وہ اﷲ والے نظر اپنی تقید سے ہٹالے
جمالِ یار پیشِ نظر اور اُس میں گم ہیں ہم سراپا اپنا ہی اس کو بنا کر خاموش بیٹھے ہیں
حضرت خالدؔ وجودیؒ
۵ـ اﷲ کے مظہرِ اتم کون ہیں؟ سرکارِ دو عالم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم ہیں۔ اﷲ رب العزت کا مرتبہ ’’احدیت‘‘ ہے وہ تنزل فرماکرمرتبۂ ’’ وحدت‘‘ میں آکر جو مرتبۂ اجمال یعنی حقیقت محمدی ہے، حقائق اشیائے کائنات کو جو مرتبہ ’’واحدیت‘‘ میں نمایاں ہیں ’’حُکمِ کُن‘‘ فرماتا ہے تو تمام چیزیں کائینات میں پیدا ہوجاتی ہیں یعنی ظہور میں آتی ہیں۔
منور ہوا جن کے نور سے عالم محمدؐ کو نورِخدا جانتے ہیں
حضرت خالدؔ وجودیؒ
سببِ اشاعتِ کلام:۔
حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ نے اپنے حینِ حیات کے آخری سال 1987 ء دادا پیر حضرت خواجہ شمس پیا ؒ کے عرس کے موقع پر اورنگ آباد شریف میں مجھ خادم سے فرمائے کہ’’ بیٹا میرے اس کلام (خیالستانِ خالدؔ ) کے منظومات میں ہر منظوم کے کم از کم گیارہ اشعار کو اور اگر منظوم طویل ہو تو زیادہ مناسب اشعار کا انتخاب کرکے اس کی طبع و اشاعت کردینا‘‘۔چنانچہ دوسرےہی سال آپؒ کے وصال کے بعد میں اس اہم کام میں جُٹ گیا اور اشعار کے انتخاب اور اصنافِ سخن کے لحاظ سے ترتیب دینے کا اہم کام طویل عرصہ تک جاری رہا ۔بالآخربفضل تعالیٰ ’’خیالستانِ خالدؔ ‘‘ کو حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ کے منشے کے مطابق چار ابواب (حصوں) میں ۔ تقسیم کیا گیا۔ پہلا باب حمد و نعتِ شریف ۔دوسرا باب مناقب اہل اﷲ ۔تیسرا باب تعلیماتِ خالدؔ ۔چوتھا باب غزلیات و رباعیات پر مشتمل قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔ ہر باب تقریباً 200 صفحات پر مشتمل ہے۔اس طرح ’’خیالستانِ خالد‘‘ کی پہلی اڈیشن، چار جلدوں میں جمادی الثانی ۱۴۳۲ھ مطابق مئی ۲۰۱۱ء کو بہ زیر اہتمام لطیف اکیڈمی اینڈا پبلشرز ٹولی چوکی حیدرآباد ۔انڈیا اشعات کی گی ہے فون ۹۴۹۰۷۵۴۱۶۰ ۔